سارے منظر فسوں تماشا ہیں
کل گھٹائیں تھیں آج دریا ہیں
کوئی یادوں سے جوڑ لے ہم کو
ہم بھی اک ٹوٹتا سا رشتہ ہیں
ناؤ جیسے بھنور میں چکرائے
اب بھی آنکھوں میں خواب زندہ ہیں
بے تحاشہ ہواؤں سے پوچھیں
راستے کس سفر کا نوحہ ہیں
دھند اوڑھے نگاہیں کیسی ہیں
سانس لیتے ہوئے کھنڈر کیا ہیں
غزل
سارے منظر فسوں تماشا ہیں
بشر نواز