EN हिंदी
یاد شیاری | شیح شیری

یاد

237 شیر

یاد میں خواب میں تصور میں
آ کہ آنے کے ہیں ہزار طریق

بیان میرٹھی




تمہاری یاد میرا دل یہ دونوں چلتے پرزے ہیں
جو ان میں سے کوئی مٹتا مجھے پہلے مٹا جاتا

بیخود دہلوی




آتی ہے بات بات مجھے بار بار یاد
کہتا ہوں دوڑ دوڑ کے قاصد سے راہ میں

داغؔ دہلوی




لیجئے سنئے اب افسانۂ فرقت مجھ سے
آپ نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا

داغؔ دہلوی




میرے قابو میں نہ پہروں دل ناشاد آیا
وہ مرا بھولنے والا جو مجھے یاد آیا

داغؔ دہلوی




مجھے یاد کرنے سے یہ مدعا تھا
نکل جائے دم ہچکیاں آتے آتے

داغؔ دہلوی




وفا کریں گے نباہیں گے بات مانیں گے
تمہیں بھی یاد ہے کچھ یہ کلام کس کا تھا

داغؔ دہلوی