EN हिंदी
اب نہیں درد چھپانے کا قرینہ مجھ میں | شیح شیری
ab nahin dard chhupane ka qarina mujh mein

غزل

اب نہیں درد چھپانے کا قرینہ مجھ میں

بقا بلوچ

;

اب نہیں درد چھپانے کا قرینہ مجھ میں
کیا کروں بس گیا اک شخص انوکھا مجھ میں

اس کی آنکھیں مجھے محصور کئے رکھتی ہیں
وہ جو اک شخص ہے مدت سے صف آرا مجھ میں

اپنی مٹی سے رہی ایسی رفاقت مجھ کو
پھیلتا جاتا ہے اک ریت کا صحرا مجھ میں

میرے چہرے پہ اگر کرب کے آثار نہیں
یہ نہ سمجھو کہ نہیں کوئی تمنا مجھ میں

میں کنارے پہ کھڑا ہوں تو کوئی بات نہیں
بہتا رہتا ہے تری یاد کا دریا مجھ میں

ڈوب تو جاؤں تری مدبھری آنکھوں میں مگر
لڑکھڑانے کا نہیں حوصلہ اتنا مجھ میں

جب سے اک شخص نے دیکھا ہے محبت سے بقاؔ
پھیلتا جاتا ہے ہر روز اجالا مجھ میں