ایک چہرہ ہے جو آنکھوں میں بسا رہتا ہے
اک تصور ہے جو تنہا نہیں ہونے دیتا
جاوید نسیمی
اس نے آنچل سے نکالی مری گم گشتہ بیاض
اور چپکے سے محبت کا ورق موڑ دیا
جاوید صبا
عشق کو ایک عمر چاہئے اور
عمر کا کوئی اعتبار نہیں
جگر بریلوی
عشق میں قدر خستگی کی امید
اے جگرؔ ہوش کی دوا کیجئے
جگر بریلوی
سانس لینے میں درد ہوتا ہے
اب ہوا زندگی کی راس نہیں
جگر بریلوی
تم نہیں پاس کوئی پاس نہیں
اب مجھے زندگی کی آس نہیں
جگر بریلوی
آیا تھا ساتھ لے کے محبت کی آفتیں
جائے گا جان لے کے زمانہ شباب کا
جگرؔ بسوانی