EN हिंदी
محابب شیاری | شیح شیری

محابب

406 شیر

ایک چہرہ ہے جو آنکھوں میں بسا رہتا ہے
اک تصور ہے جو تنہا نہیں ہونے دیتا

جاوید نسیمی




اس نے آنچل سے نکالی مری گم گشتہ بیاض
اور چپکے سے محبت کا ورق موڑ دیا

جاوید صبا




عشق کو ایک عمر چاہئے اور
عمر کا کوئی اعتبار نہیں

جگر بریلوی




عشق میں قدر خستگی کی امید
اے جگرؔ ہوش کی دوا کیجئے

جگر بریلوی




سانس لینے میں درد ہوتا ہے
اب ہوا زندگی کی راس نہیں

جگر بریلوی




تم نہیں پاس کوئی پاس نہیں
اب مجھے زندگی کی آس نہیں

جگر بریلوی




آیا تھا ساتھ لے کے محبت کی آفتیں
جائے گا جان لے کے زمانہ شباب کا

جگرؔ بسوانی