EN हिंदी
محابب شیاری | شیح شیری

محابب

406 شیر

آنکھیں جو اٹھائے تو محبت کا گماں ہو
نظروں کو جھکائے تو شکایت سی لگے ہے

جاں نثاراختر




عشق میں کیا نقصان نفع ہے ہم کو کیا سمجھاتے ہو
ہم نے ساری عمر ہی یارو دل کا کاروبار کیا

جاں نثاراختر




سو چاند بھی چمکیں گے تو کیا بات بنے گی
تم آئے تو اس رات کی اوقات بنے گی

جاں نثاراختر




عشق کی چوٹ کا کچھ دل پہ اثر ہو تو سہی
درد کم ہو یا زیادہ ہو مگر ہو تو سہی

جلالؔ لکھنوی




ہر آن ایک تازہ شکایت ہے آپ سے
اللہ مجھ کو کتنی محبت ہے آپ سے

جلال الدین اکبر




اک سفر میں کوئی دو بار نہیں لٹ سکتا
اب دوبارہ تری چاہت نہیں کی جا سکتی

جمال احسانی




یاد رکھنا ہی محبت میں نہیں ہے سب کچھ
بھول جانا بھی بڑی بات ہوا کرتی ہے

جمال احسانی