زمیں سے اٹھی ہے یا چرخ پر سے اتری ہے
یہ آگ عشق کی یارب کدھر سے اتری ہے
انشاءؔ اللہ خاں
ٹھہری ٹھہری سی طبیعت میں روانی آئی
آج پھر یاد محبت کی کہانی آئی
اقبال اشہر
آدمی جان کے کھاتا ہے محبت میں فریب
خود فریبی ہی محبت کا صلہ ہو جیسے
اقبال عظیم
بارہا ان سے نہ ملنے کی قسم کھاتا ہوں میں
اور پھر یہ بات قصداً بھول بھی جاتا ہوں میں
اقبال عظیم
ہم بہت دور نکل آئے ہیں چلتے چلتے
اب ٹھہر جائیں کہیں شام کے ڈھلتے ڈھلتے
اقبال عظیم
زیان دل ہی اس بازار میں سود محبت ہے
یہاں ہے فائدہ خود کو اگر نقصان میں رکھ لیں
اقبال کوثر
بدن میں جیسے لہو تازیانہ ہو گیا ہے
اسے گلے سے لگائے زمانہ ہو گیا ہے
عرفانؔ صدیقی