درد ہو دکھ ہو تو دوا کیجے
پھٹ پڑے آسماں تو کیا کیجے
اک ستم ہو تو جان دے دیجئے
ہو ستم پر ستم تو کیا کیجے
حال سن کر مرا وہ یوں بولے
اور دل دیجئے وفا کیجے
عشق کو دیجئے جنوں میں فروغ
درد سے درد کی دوا کیجے
راس آئے نہ گر کشاکش زیست
دل محزوں کو مبتلا کیجے
عشق میں قدر خستگی کی امید
اے جگرؔ ہوش کی دوا کیجے
غزل
درد ہو دکھ ہو تو دوا کیجے
جگر بریلوی