EN हिंदी
درد ہو دکھ ہو تو دوا کیجے | شیح شیری
dard ho dukh ho to dawa kije

غزل

درد ہو دکھ ہو تو دوا کیجے

جگر بریلوی

;

درد ہو دکھ ہو تو دوا کیجے
پھٹ پڑے آسماں تو کیا کیجے

اک ستم ہو تو جان دے دیجئے
ہو ستم پر ستم تو کیا کیجے

حال سن کر مرا وہ یوں بولے
اور دل دیجئے وفا کیجے

عشق کو دیجئے جنوں میں فروغ
درد سے درد کی دوا کیجے

راس آئے نہ گر کشاکش زیست
دل محزوں کو مبتلا کیجے

عشق میں قدر خستگی کی امید
اے جگرؔ ہوش کی دوا کیجے