EN हिंदी
محابب شیاری | شیح شیری

محابب

406 شیر

محبت، صلح بھی پیکار بھی ہے
یہ شاخ گل بھی ہے تلوار بھی ہے

جگر مراد آبادی




تری خوشی سے اگر غم میں بھی خوشی نہ ہوئی
وہ زندگی تو محبت کی زندگی نہ ہوئی

جگر مراد آبادی




ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

جگر مراد آبادی




کوئی آیا تری جھلک دیکھی
کوئی بولا سنی تری آواز

جوشؔ ملیح آبادی




عشق اس درد کا نہیں قائل
جو مصیبت کی انتہا نہ ہوا

جوشؔ ملسیانی




عشق ہے جی کا زیاں عشق میں رکھا کیا ہے
دل برباد بتا تیری تمنا کیا ہے

جنید حزیں لاری




ہیں لازم و ملزوم بہم حسن و محبت
ہم ہوتے نہ طالب جو وہ مطلوب نہ ہوتا

جرأت قلندر بخش