آغاز محبت کا انجام بس اتنا ہے
جب دل میں تمنا تھی اب دل ہی تمنا ہے
جگر مراد آبادی
آتش عشق وہ جہنم ہے
جس میں فردوس کے نظارے ہیں
جگر مراد آبادی
اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں
فیضان محبت عام سہی عرفان محبت عام نہیں
جگر مراد آبادی
دل میں کسی کے راہ کئے جا رہا ہوں میں
کتنا حسیں گناہ کئے جا رہا ہوں میں
جگر مراد آبادی
دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد
اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد
جگر مراد آبادی
ہائے رے مجبوریاں محرومیاں ناکامیاں
عشق آخر عشق ہے تم کیا کرو ہم کیا کریں
جگر مراد آبادی
ابتدا وہ تھی کہ جینا تھا محبت میں محال
انتہا یہ ہے کہ اب مرنا بھی مشکل ہو گیا
جگر مراد آبادی