EN हिंदी
تم نہیں پاس کوئی پاس نہیں | شیح شیری
tum nahin pas koi pas nahin

غزل

تم نہیں پاس کوئی پاس نہیں

جگر بریلوی

;

تم نہیں پاس کوئی پاس نہیں
اب مجھے زندگی کی آس نہیں

کشمکش میں نہ روح پڑ جائے
یوں تو مرنے کا کچھ ہراس نہیں

لالہ و گل بجھا سکیں جس کو
عشق کی پیاس ایسی پیاس نہیں

عمر سی عمر ہو گئی برباد
دل ناداں عبث اداس نہیں

سانس لینے میں درد ہوتا ہے
اب ہوا زندگی کی راس نہیں

راہ میں اپنی خاک ہونے دے
اور کچھ میری التماس نہیں

کیا بتاؤں مآل شوق جگرؔ
آہ قائم مرے حواس نہیں