EN हिंदी
خواجہ شیاری | شیح شیری

خواجہ

126 شیر

ابھی وہ آنکھ بھی سوئی نہیں ہے
ابھی وہ خواب بھی جاگا ہوا ہے

نصیر احمد ناصر




ہر اک مکاں میں گزر گاہ خواب ہے لیکن
اگر نہیں تو نہیں عشق کے جناب میں خواب

نظیر اکبرآبادی




خفا دیکھا ہے اس کو خواب میں دل سخت مضطر ہے
کھلا دے دیکھیے کیا کیا گل تعبیر خواب اپنا

نظیر اکبرآبادی




خواب کیا تھا جو مرے سر میں رہا
رات بھر اک شور سا گھر میں رہا

نذیر قیصر




یہی ہے زندگی کچھ خواب چند امیدیں
انہیں کھلونوں سے تم بھی بہل سکو تو چلو

ندا فاضلی




بڑی آرزو تھی ہم کو نئے خواب دیکھنے کی
سو اب اپنی زندگی میں نئے خواب بھر رہے ہیں

عبید اللہ علیم




خواب ہی خواب کب تلک دیکھوں
کاش تجھ کو بھی اک جھلک دیکھوں

عبید اللہ علیم