EN हिंदी
نہ دل میں صبر نہ اب دیدۂ پر آب میں خواب | شیح شیری
na dil mein sabr na ab dida-e-pur-ab mein KHwab

غزل

نہ دل میں صبر نہ اب دیدۂ پر آب میں خواب

نظیر اکبرآبادی

;

نہ دل میں صبر نہ اب دیدۂ پر آب میں خواب
شتاب آ کہ ہمیں آوے اس عذاب میں خواب

جہاں بھی خواب ہے اور ہم بھی خواب ہیں اے دل
عجب بہار کا دیکھا یہ ہم نے خواب میں خواب

ہماری چشم کا اے شہسوار توسن ناز
جو غور کی تو کیا ہے تری رکاب میں خواب

ہر اک مکاں میں گزر گاہ خواب ہے لیکن
اگر نہیں تو نہیں عشق کے جناب میں خواب

ہجوم اشک میں لگتی ہے چشم تر اس طور
کہ جیسے ماہی کو آتا ہے اپنے آب میں خواب

روا روی میں لگے آنکھ کس طرح سے نظیرؔ
مسافروں کو کہاں ایسے اضطراب میں خواب