اک خواب ہی تو تھا جو فراموش ہو گیا
اک یاد ہی تو تھی جو بھلا دی گئی تو کیا
افتخار عارف
خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
ایسی تنہائی کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
افتخار عارف
وہی ہے خواب جسے مل کے سب نے دیکھا تھا
اب اپنے اپنے قبیلوں میں بٹ کے دیکھتے ہیں
افتخار عارف
خواب، امید، تمنائیں، تعلق، رشتے
جان لے لیتے ہیں آخر یہ سہارے سارے
عمران الحق چوہان
کس عجب ساعت نایاب میں آیا ہوا ہوں
تجھ سے ملنے میں ترے خواب میں آیا ہوا ہوں
عرفان ستار
ہے بہت کچھ مری تعبیر کی دنیا تجھ میں
پھر بھی کچھ ہے کہ جو خوابوں کے جہاں سے کم ہے
عرفانؔ صدیقی
اٹھو یہ منظر شب تاب دیکھنے کے لیے
کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے
عرفانؔ صدیقی