EN हिंदी
خواجہ شیاری | شیح شیری

خواجہ

126 شیر

دکھائی خواب میں دی تھی ٹک اک منہ کی جھلک ہم کوں
نہیں طاقت انکھیوں کے کھولنے کی اب تلک ہم کوں

آبرو شاہ مبارک




بلائے جاں تھی جو بزم تماشا چھوڑ دی میں نے
خوشا اے زندگی خوابوں کی دنیا چھوڑ دی میں نے

ابو محمد سحر




دروازہ کھٹکھٹا کے ستارے چلے گئے
خوابوں کی شال اوڑھ کے میں اونگھتا رہا

عادل منصوری




نیند بھی جاگتی رہی پورے ہوئے نہ خواب بھی
صبح ہوئی زمین پر رات ڈھلی مزار میں

عادل منصوری




کبھی جو یار کو دیکھا تو خواب میں دیکھا
مری مراد بھی آئی تو مستعار آئی

آغا حجو شرف




نہیں کرتے وہ باتیں عالم رویا میں بھی ہم سے
خوشی کے خواب بھی دیکھیں تو بے تعبیر ہوتے ہیں

آغا حجو شرف




کسی کو خواب میں اکثر پکارتے ہیں ہم
عطاؔ اسی لیے سوتے میں ہونٹ ہلتے ہیں

احمد عطا