ستارہ شام سے نکلا ہوا ہے
دیا بھی طاق میں رکھا ہوا ہے
کہیں وہ رات بھی مہکی ہوئی ہے
کہیں وہ چاند بھی چمکا ہوا ہے
ابھی وہ آنکھ بھی سوئی نہیں ہے
ابھی وہ خواب بھی جاگا ہوا ہے
کسی بادل کو چھو کر آ رہی ہے
ہوا کا پیرہن بھیگا ہوا ہے
زمیں بے عکس ہو کر رہ گئی ہے
فلک کا آئنہ میلا ہوا ہے
خموشی جھانکتی ہے کھڑکیوں سے
گلی میں شور سا پھیلا ہوا ہے
ہوا گم صم کھڑی ہے راستے میں
مسافر سوچ میں ڈوبا ہوا ہے
کوئی نیندوں میں خوشبو گھولتا ہے
دریچہ خواب کا مہکا ہوا ہے
کسی گزرے برس کی ڈائری میں
تمہارا نام بھی لکھا ہوا ہے
چراغ شام کی آنکھیں بجھی ہیں
ستارہ خواب کا ٹوٹا ہوا ہے
سفر کی رات ہے ناصرؔ دلوں میں
عجب اک درد سا ٹھہرا ہوا ہے
غزل
ستارہ شام سے نکلا ہوا ہے
نصیر احمد ناصر