EN हिंदी
خواجہ شیاری | شیح شیری

خواجہ

126 شیر

زندگی خواب دیکھتی ہے مگر
زندگی زندگی ہے خواب نہیں

مقبول نقش




ہیں تصور میں اس کے آنکھیں بند
لوگ جانیں ہیں خواب کرتا ہوں

میر محمدی بیدار




لیتے ہی نام اس کا سوتے سے چونک اٹھے
ہے خیر میرؔ صاحب کچھ تم نے خواب دیکھا

میر تقی میر




آنکھیں کھولو خواب سمیٹو جاگو بھی
علویؔ پیارے دیکھو سالا دن نکلا

محمد علوی




اب جدائی کے سفر کو مرے آسان کرو
تم مجھے خواب میں آ کر نہ پریشان کرو

منور رانا




خواب ہوتے ہیں دیکھنے کے لیے
ان میں جا کر مگر رہا نہ کرو

منیر نیازی




ایسا بھی کبھی ہو میں جسے خواب میں دیکھوں
جاگوں تو وہی خواب کی تعبیر بتائے

مصطفی شہاب