EN हिंदी
خواجہ شیاری | شیح شیری

خواجہ

126 شیر

آنکھ کھلتے ہی بستیاں تاراج
کوئی لذت نہیں ہے خوابوں میں

آشفتہ چنگیزی




عجیب خواب تھا تعبیر کیا ہوئی اس کی
کہ ایک دریا ہواؤں کے رخ پہ بہتا تھا

آشفتہ چنگیزی




خواب جتنے دیکھنے ہیں آج سارے دیکھ لیں
کیا بھروسہ کل کہاں پاگل ہوا لے جائے گی

آشفتہ چنگیزی




سونے سے جاگنے کا تعلق نہ تھا کوئی
سڑکوں پہ اپنے خواب لیے بھاگتے رہے

آشفتہ چنگیزی




طلب کریں تو یہ آنکھیں بھی ان کو دے دوں میں
مگر یہ لوگ ان آنکھوں کے خواب مانگتے ہیں

عباس رضوی




پھر نئی ہجرت کوئی درپیش ہے
خواب میں گھر دیکھنا اچھا نہیں

عبد اللہ جاوید




بھر لائے ہیں ہم آنکھ میں رکھنے کو مقابل
اک خواب تمنا تری غفلت کے برابر

ابرار احمد