EN हिंदी
خواجہ شیاری | شیح شیری

خواجہ

126 شیر

کسی خیال کسی خواب کے لیے خورشیدؔ
دیا دریچے میں رکھا تھا دل جلایا تھا

خورشید ربانی




میں ہوں اک پیکر خیال و خواب
اور کتنی بڑی حقیقت ہوں

خورشید ربانی




وائے نادانی کہ وقت مرگ یہ ثابت ہوا
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا

خواجہ میر دردؔ




کبھی دکھا دے وہ منظر جو میں نے دیکھے نہیں
کبھی تو نیند میں اے خواب کے فرشتے آ

کمار پاشی




دل مرا خواب گاہ دلبر ہے
بس یہی ایک سونے کا گھر ہے

لالہ مادھو رام جوہر




خواب میں نام ترا لے کے پکار اٹھتا ہوں
بے خودی میں بھی مجھے یاد تری یاد کی ہے

لالہ مادھو رام جوہر




خواب کا رشتہ حقیقت سے نہ جوڑا جائے
آئینہ ہے اسے پتھر سے نہ توڑا جائے

ملک زادہ منظور احمد