عاشق کی سیہ روزی ایجاد ہوئی جس دن
اس روز سے خوابوں کی یہ زلف پریشاں ہے
عشق اورنگ آبادی
آنکھوں میں جو بھر لوگے تو کانٹوں سے چبھیں گے
یہ خواب تو پلکوں پہ سجانے کے لیے ہیں
جاں نثاراختر
کچل کے پھینک دو آنکھوں میں خواب جتنے ہیں
اسی سبب سے ہیں ہم پر عذاب جتنے ہیں
جاں نثاراختر
اور تو کیا تھا بیچنے کے لئے
اپنی آنکھوں کے خواب بیچے ہیں
جون ایلیا
کبھی جو خواب تھا وہ پا لیا ہے
مگر جو کھو گئی وہ چیز کیا تھی
جاوید اختر
بن دیکھے اس کے جاوے رنج و عذاب کیوں کر
وہ خواب میں تو آوے پر آوے خواب کیوں کر
جرأت قلندر بخش
جب سے اک خواب کی تعبیر ملی ہے مجھ کو
میں ہر اک خواب کی تعبیر سے گھبراتا ہوں
کفیل آزر امروہوی