EN हिंदी
خواجہ شیاری | شیح شیری

خواجہ

126 شیر

عاشق کی سیہ روزی ایجاد ہوئی جس دن
اس روز سے خوابوں کی یہ زلف پریشاں ہے

عشق اورنگ آبادی




آنکھوں میں جو بھر لوگے تو کانٹوں سے چبھیں گے
یہ خواب تو پلکوں پہ سجانے کے لیے ہیں

جاں نثاراختر




کچل کے پھینک دو آنکھوں میں خواب جتنے ہیں
اسی سبب سے ہیں ہم پر عذاب جتنے ہیں

جاں نثاراختر




اور تو کیا تھا بیچنے کے لئے
اپنی آنکھوں کے خواب بیچے ہیں

جون ایلیا




کبھی جو خواب تھا وہ پا لیا ہے
مگر جو کھو گئی وہ چیز کیا تھی

جاوید اختر




بن دیکھے اس کے جاوے رنج و عذاب کیوں کر
وہ خواب میں تو آوے پر آوے خواب کیوں کر

جرأت قلندر بخش




جب سے اک خواب کی تعبیر ملی ہے مجھ کو
میں ہر اک خواب کی تعبیر سے گھبراتا ہوں

کفیل آزر امروہوی