EN हिंदी
خواجہ شیاری | شیح شیری

خواجہ

126 شیر

کیا حسیں خواب محبت نے دکھایا تھا ہمیں
کھل گئی آنکھ تو تعبیر پہ رونا آیا

شکیل بدایونی




خواب ویسے تو اک عنایت ہے
آنکھ کھل جائے تو مصیبت ہے

شارق کیفی




کیا جانے اسے وہم ہے کیا میری طرف سے
جو خواب میں بھی رات کو تنہا نہیں آتا

I wonder to what misgivings she is prone
that even in my dreams she's not alone

شیخ ابراہیم ذوقؔ




وقت پیری شباب کی باتیں
ایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں

in old age talk of youth now seems
to be just like the stuff of dreams

شیخ ابراہیم ذوقؔ




آنکھیں کھلیں تو جاگ اٹھیں حسرتیں تمام
اس کو بھی کھو دیا جسے پایا تھا خواب میں

as my eyes did ope my yearnings did rebound
for I lost the person who in my dreams I found

سراج لکھنوی




ہے تا حد امکاں کوئی بستی نہ بیاباں
آنکھوں میں کوئی خواب دکھائی نہیں دیتا

سید امین اشرف




ہم کس کو دکھاتے شب فرقت کی اداسی
سب خواب میں تھے رات کو بیدار ہمیں تھے

تعشق لکھنوی