خواب کیا تھا جو مرے سر میں رہا
رات بھر اک شور سا گھر میں رہا
اک کرن محراب سے لپٹی رہی
ایک سایا ادھ کھلے در میں رہا
ٹوٹتی بنتی رہیں پرچھائیاں
خواہشوں کا عکس پیکر میں رہا
میں سر طاق صدا جل بجھ گیا
تو وہ شعلہ تھا کہ پتھر میں رہا
پانیوں میں مشعلیں بہتی رہیں
آسماں ٹھہرا سمندر میں رہا
آئنہ در آئنہ شمعیں بجھیں
دیکھنا اپنے مقدر میں رہا
غزل
خواب کیا تھا جو مرے سر میں رہا
نذیر قیصر