EN हिंदी
خواجہ شیاری | شیح شیری

خواجہ

126 شیر

کل رات جگاتی رہی اک خواب کی دوری
اور نیند بچھاتی رہی بستر مرے آگے

کاشف حسین غائر




ہاتھ لگاتے ہی مٹی کا ڈھیر ہوئے
کیسے کیسے رنگ بھرے تھے خوابوں میں

خاور اعجاز




خواب دیکھا تھا محبت کا محبت کی قسم
پھر اسی خواب کی تعبیر میں مصروف تھا میں

خالد ملک ساحلؔ




کسی خیال کا کوئی وجود ہو شاید
بدل رہا ہوں میں خوابوں کو تجربہ کر کے

خالد ملک ساحلؔ




کوئی تو بات ہوگی کہ کرنے پڑے ہمیں
اپنے ہی خواب اپنے ہی قدموں سے پائمال

خلیلؔ الرحمن اعظمی




نہیں اب کوئی خواب ایسا تری صورت جو دکھلائے
بچھڑ کر تجھ سے کس منزل پر ہم تنہا چلے آئے

خلیلؔ الرحمن اعظمی




خدا کرے کہ کھلے ایک دن زمانے پر
مری کہانی میں جو استعارہ خواب کا ہے

خورشید ربانی