EN हिंदी
انتر شیاری | شیح شیری

انتر

93 شیر

موت کا انتظار باقی ہے
آپ کا انتظار تھا نہ رہا

فانی بدایونی




اک رات وہ گیا تھا جہاں بات روک کے
اب تک رکا ہوا ہوں وہیں رات روک کے

فرحت احساس




وہ چاند کہہ کے گیا تھا کہ آج نکلے گا
تو انتظار میں بیٹھا ہوا ہوں شام سے میں

فرحت احساس




مثال شمع جلا ہوں دھواں سا بکھرا ہوں
میں انتظار کی ہر کیفیت سے گزرا ہوں

فاضل جمیلی




اک عمر کٹ گئی ہے ترے انتظار میں
ایسے بھی ہیں کہ کٹ نہ سکی جن سے ایک رات

فراق گورکھپوری




کوئی آیا نہ آئے گا لیکن
کیا کریں گر نہ انتظار کریں

she came not, nor is likely to
save waiting what else can I do

فراق گورکھپوری




نہ کوئی وعدہ نہ کوئی یقیں نہ کوئی امید
مگر ہمیں تو ترا انتظار کرنا تھا

no promise,surety, nor any hope was due
yet I had little choice but to wait for you

فراق گورکھپوری