ضبط اپنا شعار تھا نہ رہا
دل پہ کچھ اختیار تھا نہ رہا
دل مرحوم کو خدا بخشے
ایک ہی غم گسار تھا نہ رہا
آ کہ وقت سکون مرگ آیا
نالہ ناخوش گوار تھا نہ رہا
ان کی بے مہریوں کو کیا معلوم
کوئی امیدوار تھا نہ رہا
آہ کا اعتبار بھی کب تک
آہ کا اعتبار تھا نہ رہا
کچھ زمانے کو سازگار سہی
جو ہمیں سازگار تھا نہ رہا
اب گریباں کہیں سے چاک نہیں
شغل فصل بہار تھا نہ رہا
موت کا انتظار باقی ہے
آپ کا انتظار تھا نہ رہا
مہرباں یہ مزار فانیؔ ہے
آپ کا جاں نثار تھا نہ رہا
غزل
ضبط اپنا شعار تھا نہ رہا
فانی بدایونی