مثال شمع جلا ہوں دھواں سا بکھرا ہوں
میں انتظار کی ہر کیفیت سے گزرا ہوں
سب اپنے اپنے دیوں کے اسیر پائے گئے
میں چاند بن کے کئی آنگنوں میں اترا ہوں
کچھ اور بڑھ گئی بارش میں بے بسی اپنی
نہ بام سے نہ کسی کی گلی سے گزرا ہوں
پکارتی تھی مجھے ساحلوں کی خاموشی
میں ڈوب ڈوب کے جو بار بار ابھرا ہوں
کیوں اتنا میرے خیالوں میں بس گیا ہے کوئی
کبھی کسی کے تصور سے میں بھی گزرا ہوں
کوئی تو آج مجھے آنکھ بھر کے دیکھے گا
میں آج اپنے لہو میں نہا کے نکھرا ہوں
غزل
مثال شمع جلا ہوں دھواں سا بکھرا ہوں
فاضل جمیلی