EN हिंदी
انتر شیاری | شیح شیری

انتر

93 شیر

کھلا ہے در پہ ترا انتظار جاتا رہا
خلوص تو ہے مگر اعتبار جاتا رہا

جاوید اختر




جسے نہ آنے کی قسمیں میں دے کے آیا ہوں
اسی کے قدموں کی آہٹ کا انتظار بھی ہے

جاوید نسیمی




کبھی اس راہ سے گزرے وہ شاید
گلی کے موڑ پر تنہا کھڑا ہوں

جنید حزیں لاری




کون آئے گا یہاں کوئی نہ آیا ہوگا
میرا دروازہ ہواؤں نے ہلایا ہوگا

کیف بھوپالی




تیری آمد کی منتظر آنکھیں
بجھ گئیں خاک ہو گئے رستے

خلیل تنویر




اب ان حدود میں لایا ہے انتظار مجھے
وہ آ بھی جائیں تو آئے اعتبار مجھے

خمارؔ بارہ بنکوی




او جانے والے آ کہ ترے انتظار میں
رستے کو گھر بنائے زمانے گزر گئے

خمارؔ بارہ بنکوی