EN हिंदी
انتر شیاری | شیح شیری

انتر

93 شیر

مجھے خبر تھی مرا انتظار گھر میں رہا
یہ حادثہ تھا کہ میں عمر بھر سفر میں رہا

ساقی فاروقی




آدھی سے زیادہ شب غم کاٹ چکا ہوں
اب بھی اگر آ جاؤ تو یہ رات بڑی ہے

ثاقب لکھنوی




تیرے وعدے کو کبھی جھوٹ نہیں سمجھوں گا
آج کی رات بھی دروازہ کھلا رکھوں گا

شہریار




اتنا میں انتظار کیا اس کی راہ میں
جو رفتہ رفتہ دل مرا بیمار ہو گیا

شیخ ظہور الدین حاتم




مدت ہوئی پلک سے پلک آشنا نہیں
کیا اس سے اب زیادہ کرے انتظار چشم

شیخ ظہور الدین حاتم




مدت سے خواب میں بھی نہیں نیند کا خیال
حیرت میں ہوں یہ کس کا مجھے انتظار ہے

شیخ ظہور الدین حاتم




قربان سو طرح سے کیا تجھ پر آپ کو
تو بھی کبھو تو جان نہ آیا بجائے عید

شیخ ظہور الدین حاتم