EN हिंदी
انتر شیاری | شیح شیری

انتر

93 شیر

پھر بیٹھے بیٹھے وعدۂ وصل اس نے کر لیا
پھر اٹھ کھڑا ہوا وہی روگ انتظار کا

امیر مینائی




لگی رہتی ہے اشکوں کی جھڑی گرمی ہو سردی ہو
نہیں رکتی کبھی برسات جب سے تم نہیں آئے

انور شعور




یہ انتظار نہیں شمع ہے رفاقت کی
اس انتظار سے تنہائی خوبصورت ہے

ارشد عبد الحمید




مجھ کو یہ آرزو وہ اٹھائیں نقاب خود
ان کو یہ انتظار تقاضا کرے کوئی

I had hoped she would unveil at her own behest
and she waits for someone to make a request

اسرار الحق مجاز




دروازہ کھلا ہے کہ کوئی لوٹ نہ جائے
اور اس کے لیے جو کبھی آیا نہ گیا ہو

اطہر نفیس




وہ انتظار کی چوکھٹ پہ سو گیا ہوگا
کسی سے وقت تو پوچھیں کہ کیا بجا ہوگا

بشیر بدر




کبھی در پر کبھی ہے رستے میں
نہیں تھکتی ہے انتظار سے آنکھ

بشیر الدین احمد دہلوی