EN हिंदी
انتر شیاری | شیح شیری

انتر

93 شیر

جس کو آتے دیکھتا ہوں اے پری کہتا ہوں میں
آدمی بھیجا نہ ہو میرے بلانے کے لیے

خواجہ محمد وزیر لکھنوی




کٹتے کسی طرح سے نہیں ہائے کیا کروں
دن ہو گئے پہاڑ مجھے انتظار کے

لالہ مادھو رام جوہر




وعدہ نہیں پیام نہیں گفتگو نہیں
حیرت ہے اے خدا مجھے کیوں انتظار ہے

لالہ مادھو رام جوہر




چلے بھی آؤ مرے جیتے جی اب اتنا بھی
نہ انتظار بڑھاؤ کہ نیند آ جائے

محشر عنایتی




شب انتظار کی کشمکش میں نہ پوچھ کیسے سحر ہوئی
کبھی اک چراغ جلا دیا کبھی اک چراغ بجھا دیا

مجروح سلطانپوری




حد سے گزرا جب انتظار ترا
موت کا ہم نے انتظار کیا

میر علی اوسط رشک




آہ قاصد تو اب تلک نہ پھرا
دل دھڑکتا ہے کیا ہوا ہوگا

میر محمدی بیدار