سبھی کو غم ہے سمندر کے خشک ہونے کا
کہ کھیل ختم ہوا کشتیاں ڈبونے کا
شہریار
سفر کا نشہ چڑھا ہے تو کیوں اتر جائے
مزہ تو جب ہے کوئی لوٹ کے نہ گھر جائے
شہریار
شام ہوتے ہی کھلی سڑکوں کی یاد آتی ہے
سوچتا روز ہوں میں گھر سے نہیں نکلوں گا
شہریار
شدید پیاس تھی پھر بھی چھوا نہ پانی کو
میں دیکھتا رہا دریا تری روانی کو
شہریار
شہر امید حقیقت میں نہیں بن سکتا
تو چلو اس کو تصور ہی میں تعمیر کریں
شہریار
شکوہ کوئی دریا کی روانی سے نہیں ہے
رشتہ ہی مری پیاس کا پانی سے نہیں ہے
شہریار
سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے
اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے
شہریار
سیاہ رات نہیں لیتی نام ڈھلنے کا
یہی تو وقت ہے سورج ترے نکلنے کا
شہریار
یہ اک شجر کہ جس پہ نہ کانٹا نہ پھول ہے
سائے میں اس کے بیٹھ کے رونا فضول ہے
شہریار