تجھ سے مل کر بھی نہ تنہائی مٹے گی میری
دل میں رہ رہ کے یہی بات کھٹکتی کیوں ہے
شہریار
تجھے بھول گیا کبھی یاد نہیں کرتا تجھ کو
جو بات بہت پہلے کرنی تھی اب کی ہے
شہریار
تو کہاں ہے تجھ سے اک نسبت تھی میری ذات کو
کب سے پلکوں پر اٹھائے پھر رہا ہوں رات کو
شہریار
ٹوٹی پھوٹی کشتیاں دریا میں گرداب
میرے مرنے کے لیے یہ لمحے نایاب
شہریار
امید سے کم چشم خریدار میں آئے
ہم لوگ ذرا دیر سے بازار میں آئے
شہریار
عمر کا باقی سفر کرنا ہے اس شرط کے ساتھ
دھوپ دیکھیں تو اسے سائے سے تعبیر کریں
شہریار
عمر کا لمبا حصہ کر کے دانائی کے نام
ہم بھی اب یہ سوچ رہے ہیں پاگل ہو جائیں
شہریار
عمر سفر جاری ہے بس یہ کھیل دیکھنے کو
روح بدن کا بوجھ کہاں تک کب تک ڈھوتی ہے
شہریار
اس کو کسی کے واسطے بے تاب دیکھتے
ہم بھی کبھی یہ منظر نایاب دیکھتے
شہریار