اک صرف ہمیں مے کو آنکھوں سے پلاتے ہیں
کہنے کو تو دنیا میں مے خانے ہزاروں ہیں
شہریار
اک بوند زہر کے لیے پھیلا رہے ہو ہاتھ
دیکھو کبھی خود اپنے بدن کو نچوڑ کے
شہریار
ہر طرف اپنے کو بکھرا پاؤ گے
آئنوں کو توڑ کے پچھتاؤ گے
شہریار
ہر ملاقات کا انجام جدائی کیوں ہے
اب تو ہر وقت یہی بات ستاتی ہے ہمیں
شہریار
ہم نے تو کوئی بات نکالی نہیں غم کی
وہ زود پشیمان پشیمان سا کیوں ہے
شہریار
ہم خوش ہیں ہمیں دھوپ وراثت میں ملی ہے
اجداد کہیں پیڑ بھی کچھ بو گئے ہوتے
شہریار
ہم جدا ہو گئے آغاز سفر سے پہلے
جانے کس سمت ہمیں راہ وفا لے جاتی
شہریار
ہے کوئی جو بتائے شب کے مسافروں کو
کتنا سفر ہوا ہے کتنا سفر رہا ہے
شہریار
ہے آج یہ گلہ کہ اکیلا ہے شہریارؔ
ترسو گے کل ہجوم میں تنہائی کے لئے
شہریار