EN हिंदी
شہریار شیاری | شیح شیری

شہریار شیر

102 شیر

تجھ سے مل کر بھی نہ تنہائی مٹے گی میری
دل میں رہ رہ کے یہی بات کھٹکتی کیوں ہے

شہریار




تجھے بھول گیا کبھی یاد نہیں کرتا تجھ کو
جو بات بہت پہلے کرنی تھی اب کی ہے

شہریار




تو کہاں ہے تجھ سے اک نسبت تھی میری ذات کو
کب سے پلکوں پر اٹھائے پھر رہا ہوں رات کو

شہریار




ٹوٹی پھوٹی کشتیاں دریا میں گرداب
میرے مرنے کے لیے یہ لمحے نایاب

شہریار




امید سے کم چشم خریدار میں آئے
ہم لوگ ذرا دیر سے بازار میں آئے

شہریار




عمر کا باقی سفر کرنا ہے اس شرط کے ساتھ
دھوپ دیکھیں تو اسے سائے سے تعبیر کریں

شہریار




عمر کا لمبا حصہ کر کے دانائی کے نام
ہم بھی اب یہ سوچ رہے ہیں پاگل ہو جائیں

شہریار




عمر سفر جاری ہے بس یہ کھیل دیکھنے کو
روح بدن کا بوجھ کہاں تک کب تک ڈھوتی ہے

شہریار




اس کو کسی کے واسطے بے تاب دیکھتے
ہم بھی کبھی یہ منظر نایاب دیکھتے

شہریار