EN हिंदी
شہریار شیاری | شیح شیری

شہریار شیر

102 شیر

جاگتا ہوں میں ایک اکیلا دنیا سوتی ہے
کتنی وحشت ہجر کی لمبی رات میں ہوتی ہے

شہریار




ان دنوں میں بھی ہوں کچھ کار جہاں میں مصروف
بات تجھ میں بھی نہیں رہ گئی پہلے والی

شہریار




اک صرف ہمیں مے کو آنکھوں سے پلاتے ہیں
کہنے کو تو دنیا میں مے خانے ہزاروں ہیں

شہریار




اک بوند زہر کے لیے پھیلا رہے ہو ہاتھ
دیکھو کبھی خود اپنے بدن کو نچوڑ کے

شہریار




ہر طرف اپنے کو بکھرا پاؤ گے
آئنوں کو توڑ کے پچھتاؤ گے

شہریار




ہر ملاقات کا انجام جدائی کیوں ہے
اب تو ہر وقت یہی بات ستاتی ہے ہمیں

شہریار




ہم نے تو کوئی بات نکالی نہیں غم کی
وہ زود پشیمان پشیمان سا کیوں ہے

شہریار




ہم خوش ہیں ہمیں دھوپ وراثت میں ملی ہے
اجداد کہیں پیڑ بھی کچھ بو گئے ہوتے

شہریار




ہم جدا ہو گئے آغاز سفر سے پہلے
جانے کس سمت ہمیں راہ وفا لے جاتی

شہریار