وقت کو کیوں بھلا برا کہیے
تجھ کو ہونا ہی تھا جدا ہم سے
شہریار
وہ کون تھا وہ کہاں کا تھا کیا ہوا تھا اسے
سنا ہے آج کوئی شخص مر گیا یارو
شہریار
یا میں سوچوں کچھ بھی نہ اس کے بارے میں
یا ایسا ہو دنیا اور بدل جائے
شہریار
یا تیرے علاوہ بھی کسی شے کی طلب ہے
یا اپنی محبت پہ بھروسا نہیں ہم کو
شہریار
یہ اک شجر کہ جس پہ نہ کانٹا نہ پھول ہے
سائے میں اس کے بیٹھ کے رونا فضول ہے
شہریار
یہ جب ہے کہ اک خواب سے رشتہ ہے ہمارا
دن ڈھلتے ہی دل ڈوبنے لگتا ہے ہمارا
شہریار
یہ کیا ہے محبت میں تو ایسا نہیں ہوتا
میں تجھ سے جدا ہو کے بھی تنہا نہیں ہوتا
شہریار
یہ کیا جگہ ہے دوستو یہ کون سا دیار ہے
حد نگاہ تک جہاں غبار ہی غبار ہے
شہریار
یہ قافلے یادوں کے کہیں کھو گئے ہوتے
اک پل بھی اگر بھول سے ہم سو گئے ہوتے
شہریار