یہ اک شجر کہ جس پہ نہ کانٹا نہ پھول ہے
سائے میں اس کے بیٹھ کے رونا فضول ہے
راتوں سے روشنی کی طلب ہائے سادگی
خوابوں میں اس کی دید کی خو کیسی بھول ہے
ہے ان کے دم قدم ہی سے کچھ آبروئے زیست
دامن میں جن کے دشت تمنا کی دھول ہے
سورج کا قہر صرف برہنہ سروں پہ ہے
پوچھو ہوس پرست سے وہ کیوں ملول ہے
آؤ ہوا کے ہاتھ کی تلوار چوم لیں
اب بزدلوں کی فوج سے لڑنا فضول ہے
غزل
یہ اک شجر کہ جس پہ نہ کانٹا نہ پھول ہے
شہریار