شکوہ کوئی دریا کی روانی سے نہیں ہے
رشتہ ہی مری پیاس کا پانی سے نہیں ہے
کل یوں تھا کہ یہ قید زمانی سے تھے بیزار
فرصت جنہیں اب سیر مکانی سے نہیں ہے
چاہا تو یقیں آئے نہ سچائی پہ اس کی
خائف کوئی گل عہد خزانی سے نہیں ہے
دہراتا نہیں میں بھی گئے لوگوں کی باتیں
اس دور کو نسبت بھی کہانی سے نہیں ہے
کہتے ہیں مرے حق میں سخن فہم بس اتنا
شعروں میں جو خوبی ہے معانی سے نہیں ہے
غزل
شکوہ کوئی دریا کی روانی سے نہیں ہے
شہریار