EN हिंदी
شہریار شیاری | شیح شیری

شہریار شیر

102 شیر

لوگ سر پھوڑ کر بھی دیکھ چکے
غم کی دیوار ٹوٹتی ہی نہیں

شہریار




میں اکیلا سہی مگر کب تک
ننگی پرچھائیوں کے بیچ رہوں

شہریار




میں اپنے جسم کی سرگوشیوں کو سنتا ہوں
ترے وصال کی ساعت نکلتی جاتی ہے

شہریار




میں سوچتا ہوں مگر یاد کچھ نہیں آتا
کہ اختتام کہاں خواب کے سفر کا ہوا

شہریار




مرے سورج آ! مرے جسم پہ اپنا سایہ کر
بڑی تیز ہوا ہے سردی آج غضب کی ہے

شہریار




مجھ کو لے ڈوبا ترا شہر میں یکتا ہونا
دل بہل جاتا اگر کوئی بھی تجھ سا ہوتا

شہریار




نہ خوش گمان ہو اس پر تو اے دل سادہ
سبھی کو دیکھ کے وہ شخص مسکراتا ہے

شہریار




نہیں ہے مجھ سے تعلق کوئی تو ایسا کیوں
کہ تو نے مڑ کے فقط اک مجھی کو دیکھا کیوں

شہریار




نظر جو کوئی بھی تجھ سا حسیں نہیں آتا
کسی کو کیا مجھے خود بھی یقیں نہیں آتا

شہریار