لوگ سر پھوڑ کر بھی دیکھ چکے
غم کی دیوار ٹوٹتی ہی نہیں
شہریار
میں اکیلا سہی مگر کب تک
ننگی پرچھائیوں کے بیچ رہوں
شہریار
میں اپنے جسم کی سرگوشیوں کو سنتا ہوں
ترے وصال کی ساعت نکلتی جاتی ہے
شہریار
میں سوچتا ہوں مگر یاد کچھ نہیں آتا
کہ اختتام کہاں خواب کے سفر کا ہوا
شہریار
مرے سورج آ! مرے جسم پہ اپنا سایہ کر
بڑی تیز ہوا ہے سردی آج غضب کی ہے
شہریار
مجھ کو لے ڈوبا ترا شہر میں یکتا ہونا
دل بہل جاتا اگر کوئی بھی تجھ سا ہوتا
شہریار
نہ خوش گمان ہو اس پر تو اے دل سادہ
سبھی کو دیکھ کے وہ شخص مسکراتا ہے
شہریار
نہیں ہے مجھ سے تعلق کوئی تو ایسا کیوں
کہ تو نے مڑ کے فقط اک مجھی کو دیکھا کیوں
شہریار
نظر جو کوئی بھی تجھ سا حسیں نہیں آتا
کسی کو کیا مجھے خود بھی یقیں نہیں آتا
شہریار