EN हिंदी
شہریار شیاری | شیح شیری

شہریار شیر

102 شیر

اب تو لے دے کے یہی کام ہے ان آنکھوں کا
جن کو دیکھا نہیں ان خوابوں کی تعبیر کریں

شہریار




آندھیاں آتی تھیں لیکن کبھی ایسا نہ ہوا
خوف کے مارے جدا شاخ سے پتا نہ ہوا

شہریار




عجیب سانحہ مجھ پر گزر گیا یارو
میں اپنے سائے سے کل رات ڈر گیا یارو

شہریار




عکس یاد یار کو دھندلا کیا ہے
میں نے خود کو جان کر تنہا کیا ہے

شہریار




بہت شور تھا جب سماعت گئی
بہت بھیڑ تھی جب اکیلے ہوئے

شہریار




بتاؤں کس طرح احباب کو آنکھیں جو ایسی ہیں
کہ کل پلکوں سے ٹوٹی نیند کہ کرچیں سمیٹیں ہیں

شہریار




بے نام سے اک خوف سے دل کیوں ہے پریشاں
جب طے ہے کہ کچھ وقت سے پہلے نہیں ہوگا

شہریار




بچھڑے لوگوں سے ملاقات کبھی پھر ہوگی
دل میں امید تو کافی ہے یقیں کچھ کم ہے

شہریار




چل چل کے تھک گیا ہے کہ منزل نہیں کوئی
کیوں وقت ایک موڑ پہ ٹھہرا ہوا سا ہے

شہریار