EN हिंदी
شہریار شیاری | شیح شیری

شہریار شیر

102 شیر

وقت کو کیوں بھلا برا کہیے
تجھ کو ہونا ہی تھا جدا ہم سے

شہریار




وہ کون تھا وہ کہاں کا تھا کیا ہوا تھا اسے
سنا ہے آج کوئی شخص مر گیا یارو

شہریار




یا میں سوچوں کچھ بھی نہ اس کے بارے میں
یا ایسا ہو دنیا اور بدل جائے

شہریار




یا تیرے علاوہ بھی کسی شے کی طلب ہے
یا اپنی محبت پہ بھروسا نہیں ہم کو

شہریار




یہ اک شجر کہ جس پہ نہ کانٹا نہ پھول ہے
سائے میں اس کے بیٹھ کے رونا فضول ہے

شہریار




یہ جب ہے کہ اک خواب سے رشتہ ہے ہمارا
دن ڈھلتے ہی دل ڈوبنے لگتا ہے ہمارا

شہریار




زباں ملی بھی تو کس وقت بے زبانوں کو
سنانے کے لیے جب کوئی داستاں نہ رہی

شہریار




زندگی جیسی توقع تھی نہیں کچھ کم ہے
ہر گھڑی ہوتا ہے احساس کہیں کچھ کم ہے

شہریار




زخموں کو رفو کر لیں دل شاد کریں پھر سے
خوابوں کی کوئی دنیا آباد کریں پھر سے

شہریار