EN हिंदी
شہریار شیاری | شیح شیری

شہریار شیر

102 شیر

بتاؤں کس طرح احباب کو آنکھیں جو ایسی ہیں
کہ کل پلکوں سے ٹوٹی نیند کہ کرچیں سمیٹیں ہیں

شہریار




بے نام سے اک خوف سے دل کیوں ہے پریشاں
جب طے ہے کہ کچھ وقت سے پہلے نہیں ہوگا

شہریار




بچھڑے لوگوں سے ملاقات کبھی پھر ہوگی
دل میں امید تو کافی ہے یقیں کچھ کم ہے

شہریار




چل چل کے تھک گیا ہے کہ منزل نہیں کوئی
کیوں وقت ایک موڑ پہ ٹھہرا ہوا سا ہے

شہریار




دیکھنے کے لیے اک چہرہ بہت ہوتا ہے
آنکھ جب تک ہے تجھے صرف تجھے دیکھوں گا

شہریار




دل پریشاں ہو مگر آنکھ میں حیرانی نہ ہو
خواب دیکھو کہ حقیقت سے پشیمانی نہ ہو

شہریار




دل رجھا ہے تجھ پہ ایسا بد گماں ہوگا نہیں
تو نہیں آیا تو سمجھا تو یہاں ہوگا نہیں

شہریار




ایک ہی مٹی سے ہم دونوں بنے ہیں لیکن
تجھ میں اور مجھ میں مگر فاصلہ یوں کتنا ہے

شہریار




غم کی دولت بڑی مشکل سے ملا کرتی ہے
سونپ دو ہم کو اگر تم سے نگہ بانی نہ ہو

شہریار