بتاؤں کس طرح احباب کو آنکھیں جو ایسی ہیں
کہ کل پلکوں سے ٹوٹی نیند کہ کرچیں سمیٹیں ہیں
شہریار
بے نام سے اک خوف سے دل کیوں ہے پریشاں
جب طے ہے کہ کچھ وقت سے پہلے نہیں ہوگا
شہریار
بچھڑے لوگوں سے ملاقات کبھی پھر ہوگی
دل میں امید تو کافی ہے یقیں کچھ کم ہے
شہریار
چل چل کے تھک گیا ہے کہ منزل نہیں کوئی
کیوں وقت ایک موڑ پہ ٹھہرا ہوا سا ہے
شہریار
دیکھنے کے لیے اک چہرہ بہت ہوتا ہے
آنکھ جب تک ہے تجھے صرف تجھے دیکھوں گا
شہریار
دل پریشاں ہو مگر آنکھ میں حیرانی نہ ہو
خواب دیکھو کہ حقیقت سے پشیمانی نہ ہو
شہریار
دل رجھا ہے تجھ پہ ایسا بد گماں ہوگا نہیں
تو نہیں آیا تو سمجھا تو یہاں ہوگا نہیں
شہریار
ایک ہی مٹی سے ہم دونوں بنے ہیں لیکن
تجھ میں اور مجھ میں مگر فاصلہ یوں کتنا ہے
شہریار
غم کی دولت بڑی مشکل سے ملا کرتی ہے
سونپ دو ہم کو اگر تم سے نگہ بانی نہ ہو
شہریار