تیرے وعدے کو کبھی جھوٹ نہیں سمجھوں گا
آج کی رات بھی دروازہ کھلا رکھوں گا
دیکھنے کے لیے اک چہرہ بہت ہوتا ہے
آنکھ جب تک ہے تجھے صرف تجھے دیکھوں گا
میری تنہائی کی رسوائی کی منزل آئی
وصل کے لمحے سے میں ہجر کی شب بدلوں گا
شام ہوتے ہی کھلی سڑکوں کی یاد آتی ہے
سوچتا روز ہوں میں گھر سے نہیں نکلوں گا
تاکہ محفوظ رہے میرے قلم کی حرمت
سچ مجھے لکھنا ہے میں حسن کو سچ لکھوں گا
غزل
تیرے وعدے کو کبھی جھوٹ نہیں سمجھوں گا
شہریار