EN हिंदी
شہریار شیاری | شیح شیری

شہریار شیر

102 شیر

کہئے تو آسماں کو زمیں پر اتار لائیں
مشکل نہیں ہے کچھ بھی اگر ٹھان لیجئے

شہریار




کہنے کو تو ہر بات کہی تیرے مقابل
لیکن وہ فسانہ جو مرے دل پہ رقم ہے

شہریار




کون سی بات ہے جو اس میں نہیں
اس کو دیکھے مری نظر سے کوئی

شہریار




خجل چراغوں سے اہل وفا کو ہونا ہے
کہ سرفراز یہاں پھر ہوا کو ہونا ہے

شہریار




کس کس طرح سے مجھ کو نہ رسوا کیا گیا
غیروں کا نام میرے لہو سے لکھا گیا

شہریار




کتنی تبدیل ہوئی کس لیے تبدیل ہوئی
جاننا چاہو تو ان آنکھوں سے دنیا دیکھو

شہریار




کوئی نیا مکین نہیں آیا تو حیرت کیا
کبھی تم نے کھلا چھوڑا ہی نہیں دروازوں کو

شہریار




کیا کوئی نئی بات نظر آتی ہے ہم میں
آئینہ ہمیں دیکھ کے حیران سا کیوں ہے

شہریار




کیوں آج اس کا ذکر مجھے خوش نہ کر سکا
کیوں آج اس کا نام مرا دل دکھا گیا

شہریار