کہئے تو آسماں کو زمیں پر اتار لائیں
مشکل نہیں ہے کچھ بھی اگر ٹھان لیجئے
شہریار
کہنے کو تو ہر بات کہی تیرے مقابل
لیکن وہ فسانہ جو مرے دل پہ رقم ہے
شہریار
کون سی بات ہے جو اس میں نہیں
اس کو دیکھے مری نظر سے کوئی
شہریار
خجل چراغوں سے اہل وفا کو ہونا ہے
کہ سرفراز یہاں پھر ہوا کو ہونا ہے
شہریار
کس کس طرح سے مجھ کو نہ رسوا کیا گیا
غیروں کا نام میرے لہو سے لکھا گیا
شہریار
کتنی تبدیل ہوئی کس لیے تبدیل ہوئی
جاننا چاہو تو ان آنکھوں سے دنیا دیکھو
شہریار
کوئی نیا مکین نہیں آیا تو حیرت کیا
کبھی تم نے کھلا چھوڑا ہی نہیں دروازوں کو
شہریار
کیا کوئی نئی بات نظر آتی ہے ہم میں
آئینہ ہمیں دیکھ کے حیران سا کیوں ہے
شہریار
کیوں آج اس کا ذکر مجھے خوش نہ کر سکا
کیوں آج اس کا نام مرا دل دکھا گیا
شہریار