نذرانہ تیرے حسن کو کیا دیں کہ اپنے پاس
لے دے کے ایک دل ہے سو ٹوٹا ہوا سا ہے
شہریار
پہلے نہائی اوس میں پھر آنسوؤں میں رات
یوں بوند بوند اتری ہمارے گھروں میں رات
شہریار
پل بھر میں کیسے لوگ بدل جاتے ہیں یہاں
دیکھو کہ یہ مفید ہے بینائی کے لئے
شہریار
پچھلے سفر میں جو کچھ بیتا بیت گیا یارو لیکن
اگلا سفر جب بھی تم کرنا دیکھو تنہا مت کرنا
شہریار
رات کو دن سے ملانے کی ہوس تھی ہم کو
کام اچھا نہ تھا انجام بھی اچھا نہ ہوا
شہریار
ساری دنیا کے مسائل یوں مجھے درپیش ہیں
تیرا غم کافی نہ ہو جیسے گزر اوقات کو
شہریار
سبھی کو غم ہے سمندر کے خشک ہونے کا
کہ کھیل ختم ہوا کشتیاں ڈبونے کا
شہریار
سفر کا نشہ چڑھا ہے تو کیوں اتر جائے
مزہ تو جب ہے کوئی لوٹ کے نہ گھر جائے
شہریار
شام ہوتے ہی کھلی سڑکوں کی یاد آتی ہے
سوچتا روز ہوں میں گھر سے نہیں نکلوں گا
شہریار