EN हिंदी
شہریار شیاری | شیح شیری

شہریار شیر

102 شیر

نذرانہ تیرے حسن کو کیا دیں کہ اپنے پاس
لے دے کے ایک دل ہے سو ٹوٹا ہوا سا ہے

شہریار




پہلے نہائی اوس میں پھر آنسوؤں میں رات
یوں بوند بوند اتری ہمارے گھروں میں رات

شہریار




پل بھر میں کیسے لوگ بدل جاتے ہیں یہاں
دیکھو کہ یہ مفید ہے بینائی کے لئے

شہریار




پچھلے سفر میں جو کچھ بیتا بیت گیا یارو لیکن
اگلا سفر جب بھی تم کرنا دیکھو تنہا مت کرنا

شہریار




رات کو دن سے ملانے کی ہوس تھی ہم کو
کام اچھا نہ تھا انجام بھی اچھا نہ ہوا

شہریار




ساری دنیا کے مسائل یوں مجھے درپیش ہیں
تیرا غم کافی نہ ہو جیسے گزر اوقات کو

شہریار




سبھی کو غم ہے سمندر کے خشک ہونے کا
کہ کھیل ختم ہوا کشتیاں ڈبونے کا

شہریار




سفر کا نشہ چڑھا ہے تو کیوں اتر جائے
مزہ تو جب ہے کوئی لوٹ کے نہ گھر جائے

شہریار




شام ہوتے ہی کھلی سڑکوں کی یاد آتی ہے
سوچتا روز ہوں میں گھر سے نہیں نکلوں گا

شہریار