EN हिंदी
شدید پیاس تھی پھر بھی چھوا نہ پانی کو | شیح شیری
shadid pyas thi phir bhi chhua na pani ko

غزل

شدید پیاس تھی پھر بھی چھوا نہ پانی کو

شہریار

;

شدید پیاس تھی پھر بھی چھوا نہ پانی کو
میں دیکھتا رہا دریا تری روانی کو

سیاہ رات نے بے حال کر دیا مجھ کو
کہ طول دے نہیں پایا کسی کہانی کو

بجائے میرے کسی اور کا تقرر ہو
قبول جو کرے خوابوں کی پاسبانی کو

اماں کی جا مجھے اے شہر تو نے دی تو ہے
بھلا نہ پاؤں گا صحرا کی بیکرانی کو

جو چاہتا ہے کہ اقبال ہو سوا تیرا
تو سب میں بانٹ برابر سے شادمانی کو