سیاہ رات نہیں لیتی نام ڈھلنے کا
یہی تو وقت ہے سورج ترے نکلنے کا
یہاں سے گزرے ہیں گزریں گے ہم سے اہل وفا
یہ راستہ نہیں پرچھائیوں کے چلنے کا
کہیں نہ سب کو سمندر بہا کے لے جائے
یہ کھیل ختم کرو کشتیاں بدلنے کا
بگڑ گیا جو یہ نقشہ ہوس کے ہاتھوں سے
تو پھر کسی کے سنبھالے نہیں سنبھلنے کا
زمیں نے کر لیا کیا تیرگی سے سمجھوتا
خیال چھوڑ چکے کیا چراغ جلنے کا
غزل
سیاہ رات نہیں لیتی نام ڈھلنے کا
شہریار