EN हिंदी
شہریار شیاری | شیح شیری

شہریار شیر

102 شیر

شدید پیاس تھی پھر بھی چھوا نہ پانی کو
میں دیکھتا رہا دریا تری روانی کو

شہریار




شہر امید حقیقت میں نہیں بن سکتا
تو چلو اس کو تصور ہی میں تعمیر کریں

شہریار




شکوہ کوئی دریا کی روانی سے نہیں ہے
رشتہ ہی مری پیاس کا پانی سے نہیں ہے

شہریار




سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے
اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے

شہریار




سیاہ رات نہیں لیتی نام ڈھلنے کا
یہی تو وقت ہے سورج ترے نکلنے کا

شہریار




تنہائی کی یہ کون سی منزل ہے رفیقو
تاحد نظر ایک بیابان سا کیوں ہے

شہریار




تیرے وعدے کو کبھی جھوٹ نہیں سمجھوں گا
آج کی رات بھی دروازہ کھلا رکھوں گا

شہریار




ترا خیال بھی تیری طرح ستم گر ہے
جہاں پہ چاہیئے آنا وہیں نہیں آتا

شہریار




تجھ سے بچھڑے ہیں تو اب کس سے ملاتی ہے ہمیں
زندگی دیکھیے کیا رنگ دکھاتی ہے ہمیں

شہریار