شدید پیاس تھی پھر بھی چھوا نہ پانی کو
میں دیکھتا رہا دریا تری روانی کو
شہریار
شہر امید حقیقت میں نہیں بن سکتا
تو چلو اس کو تصور ہی میں تعمیر کریں
شہریار
شکوہ کوئی دریا کی روانی سے نہیں ہے
رشتہ ہی مری پیاس کا پانی سے نہیں ہے
شہریار
سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے
اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے
شہریار
سیاہ رات نہیں لیتی نام ڈھلنے کا
یہی تو وقت ہے سورج ترے نکلنے کا
شہریار
تنہائی کی یہ کون سی منزل ہے رفیقو
تاحد نظر ایک بیابان سا کیوں ہے
شہریار
تیرے وعدے کو کبھی جھوٹ نہیں سمجھوں گا
آج کی رات بھی دروازہ کھلا رکھوں گا
شہریار
ترا خیال بھی تیری طرح ستم گر ہے
جہاں پہ چاہیئے آنا وہیں نہیں آتا
شہریار
تجھ سے بچھڑے ہیں تو اب کس سے ملاتی ہے ہمیں
زندگی دیکھیے کیا رنگ دکھاتی ہے ہمیں
شہریار