EN हिंदी
قتیل شفائی شیاری | شیح شیری

قتیل شفائی شیر

75 شیر

دشمنی مجھ سے کئے جا مگر اپنا بن کر
جان لے لے مری صیاد مگر پیار کے ساتھ

قتیل شفائی




دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ نہ تھا
اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا

قتیل شفائی




گرمیٔ حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں
ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں

I burn up in the flames of unfulfilled desire
like lanterns are, at eventide I am set afire

قتیل شفائی




گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا

قتیل شفائی




گنگناتی ہوئی آتی ہیں فلک سے بوندیں
کوئی بدلی تری پازیب سے ٹکرائی ہے

قتیل شفائی




حالات سے خوف کھا رہا ہوں
شیشے کے محل بنا رہا ہوں

قتیل شفائی




ہم کو آپس میں محبت نہیں کرنے دیتے
اک یہی عیب ہے اس شہر کے داناؤں میں

قتیل شفائی




ہم اسے یاد بہت آئیں گے
جب اسے بھی کوئی ٹھکرائے گا

قتیل شفائی




ہمیں بھی نیند آ جائے گی ہم بھی سو ہی جائیں گے
ابھی کچھ بے قراری ہے ستارو تم تو سو جاؤ

قتیل شفائی