دل پہ آئے ہوئے الزام سے پہچانتے ہیں
لوگ اب مجھ کو ترے نام سے پہچانتے ہیں
قتیل شفائی
داد سفر ملی ہے کسے راہ شوق میں
ہم نے مٹا دئے ہیں نشاں اپنے پاؤں کے
قتیل شفائی
چلو اچھا ہوا کام آ گئی دیوانگی اپنی
وگرنہ ہم زمانے بھر کو سمجھانے کہاں جاتے
twas a good thing that my madness was to some avail
else, for my state, what other reason could the world I show?
قتیل شفائی
ہم کو آپس میں محبت نہیں کرنے دیتے
اک یہی عیب ہے اس شہر کے داناؤں میں
قتیل شفائی
اپنی زباں تو بند ہے تم خود ہی سوچ لو
پڑتا نہیں ہے یوں ہی ستم گر کسی کا نام
قتیل شفائی
اپنے لیے اب ایک ہی راہ نجات ہے
ہر ظلم کو رضائے خدا کہہ لیا کرو
قتیل شفائی
احباب کو دے رہا ہوں دھوکا
چہرے پہ خوشی سجا رہا ہوں
قتیل شفائی
اچھا یقیں نہیں ہے تو کشتی ڈبا کے دیکھ
اک تو ہی ناخدا نہیں ظالم خدا بھی ہے
قتیل شفائی
ابھی تو بات کرو ہم سے دوستوں کی طرح
پھر اختلاف کے پہلو نکالتے رہنا
قتیل شفائی