EN हिंदी
قتیل شفائی شیاری | شیح شیری

قتیل شفائی شیر

75 شیر

گنگناتی ہوئی آتی ہیں فلک سے بوندیں
کوئی بدلی تری پازیب سے ٹکرائی ہے

قتیل شفائی




حالات سے خوف کھا رہا ہوں
شیشے کے محل بنا رہا ہوں

قتیل شفائی




ہم کو آپس میں محبت نہیں کرنے دیتے
اک یہی عیب ہے اس شہر کے داناؤں میں

قتیل شفائی




ہم اسے یاد بہت آئیں گے
جب اسے بھی کوئی ٹھکرائے گا

قتیل شفائی




ہمیں بھی نیند آ جائے گی ہم بھی سو ہی جائیں گے
ابھی کچھ بے قراری ہے ستارو تم تو سو جاؤ

قتیل شفائی




حوصلہ کس میں ہے یوسف کی خریداری کا
اب تو مہنگائی کے چرچے ہیں زلیخاؤں میں

قتیل شفائی




حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں
ان کی صورت نظر آئے تو غزل کہتے ہیں

قتیل شفائی




جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ
جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں

whenever my name happens to be linked to thee
I wonder why these people burn with jealousy

قتیل شفائی




جیت لے جائے کوئی مجھ کو نصیبوں والا
زندگی نے مجھے داؤں پہ لگا رکھا ہے

قتیل شفائی