جب اپنے اعتقاد کے محور سے ہٹ گیا
میں ریزہ ریزہ ہو کے حریفوں میں بٹ گیا
دشمن کے تن پہ گاڑ دیا میں نے اپنا سر
میدان کارزار کا پانسہ پلٹ گیا
تھوڑی سی اور زخم کو گہرائی مل گئی
تھوڑا سا اور درد کا احساس گھٹ گیا
درپیش اب نہیں ترا غم کیسے مان لوں
کیسا تھا وہ پہاڑ جو رستے سے ہٹ گیا
اپنے قریب پا کے معطر سی آہٹیں
میں بارہا سنکتی ہوا سے لپٹ گیا
جو بھی ملا سفر میں کسی پیڑ کے تلے
آسیب بن کے مجھ سے وہ سایا چمٹ گیا
لٹتے ہوئے عوام کے گھر بار دیکھ کر
اے شہریار تیرا کلیجہ نہ پھٹ گیا
رکھے گا خاک ربط وہ اس کائنات سے
جو ذرہ اپنی ذات کے اندر سمٹ گیا
چوروں کا احتساب نہ اب تک ہوا قتیلؔ
جو ہاتھ بے قصور تھا وہ ہاتھ کٹ گیا
غزل
جب اپنے اعتقاد کے محور سے ہٹ گیا
قتیل شفائی