رابطہ لاکھ سہی قافلہ سالار کے ساتھ
ہم کو چلنا ہے مگر وقت کی رفتار کے ساتھ
غم لگے رہتے ہیں ہر آن خوشی کے پیچھے
دشمنی دھوپ کی ہے سایۂ دیوار کے ساتھ
کس طرح اپنی محبت کی میں تکمیل کروں
غم ہستی بھی تو شامل ہے غم یار کے ساتھ
لفظ چنتا ہوں تو مفہوم بدل جاتا ہے
اک نہ اک خوف بھی ہے جرأت اظہار کے ساتھ
دشمنی مجھ سے کئے جا مگر اپنا بن کر
جان لے لے مری صیاد مگر پیار کے ساتھ
دو گھڑی آؤ مل آئیں کسی غالبؔ سے قتیلؔ
حضرت ذوقؔ تو وابستہ ہیں دربار کے ساتھ
غزل
رابطہ لاکھ سہی قافلہ سالار کے ساتھ
قتیل شفائی