EN हिंदी
دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ نہ تھا | شیح شیری
dur tak chhae the baadal aur kahin saya na tha

غزل

دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ نہ تھا

قتیل شفائی

;

دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ نہ تھا
اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا

سرخ آہن پر ٹپکتی بوند ہے اب ہر خوشی
زندگی نے یوں تو پہلے ہم کو ترسایا نہ تھا

کیا ملا آخر تجھے سایوں کے پیچھے بھاگ کر
اے دل ناداں تجھے کیا ہم نے سمجھایا نہ تھا

اف یہ سناٹا کہ آہٹ تک نہ ہو جس میں مخل
زندگی میں اس قدر ہم نے سکوں پایا نہ تھا

خوب روئے چھپ کے گھر کی چار دیواری میں ہم
حال دل کہنے کے قابل کوئی ہم سایہ نہ تھا

ہو گئے قلاش جب سے آس کی دولت لٹی
پاس اپنے اور تو کوئی بھی سرمایہ نہ تھا

وہ پیمبر ہو کہ عاشق قتل گاہ شوق میں
تاج کانٹوں کا کسے دنیا نے پہنایا نہ تھا

اب کھلا جھونکوں کے پیچھے چل رہی تھیں آندھیاں
اب جو منظر ہے وہ پہلے تو نظر آیا نہ تھا

صرف خوشبو کی کمی تھی غور کے قابل قتیلؔ
ورنہ گلشن میں کوئی بھی پھول مرجھایا نہ تھا