حالات سے خوف کھا رہا ہوں
شیشے کے محل بنا رہا ہوں
سینے میں مرے ہے موم کا دل
سورج سے بدن چھپا رہا ہوں
محروم نظر ہے جو زمانہ
آئینہ اسے دکھا رہا ہوں
احباب کو دے رہا ہوں دھوکا
چہرے پہ خوشی سجا رہا ہوں
دریائے فرات ہے یہ دنیا
پیاسا ہی پلٹ کے جا رہا ہوں
ہے شہر میں قحط پتھروں کا
جذبات کے زخم کھا رہا ہوں
ممکن ہے جواب دے اداسی
در اپنا ہی کھٹکھٹا رہا ہوں
آیا نہ قتیلؔ دوست کوئی
سایوں کو گلے لگا رہا ہوں
غزل
حالات سے خوف کھا رہا ہوں
قتیل شفائی