EN हिंदी
قتیل شفائی شیاری | شیح شیری

قتیل شفائی شیر

75 شیر

اپنی زباں تو بند ہے تم خود ہی سوچ لو
پڑتا نہیں ہے یوں ہی ستم گر کسی کا نام

قتیل شفائی




انگڑائی پر انگڑائی لیتی ہے رات جدائی کی
تم کیا سمجھو تم کیا جانو بات مری تنہائی کی

قتیل شفائی




چلو اچھا ہوا کام آ گئی دیوانگی اپنی
وگرنہ ہم زمانے بھر کو سمجھانے کہاں جاتے

twas a good thing that my madness was to some avail
else, for my state, what other reason could the world I show?

قتیل شفائی




داد سفر ملی ہے کسے راہ شوق میں
ہم نے مٹا دئے ہیں نشاں اپنے پاؤں کے

قتیل شفائی




دل پہ آئے ہوئے الزام سے پہچانتے ہیں
لوگ اب مجھ کو ترے نام سے پہچانتے ہیں

قتیل شفائی




دشمنی مجھ سے کئے جا مگر اپنا بن کر
جان لے لے مری صیاد مگر پیار کے ساتھ

قتیل شفائی




دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ نہ تھا
اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا

قتیل شفائی




گرمیٔ حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں
ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں

I burn up in the flames of unfulfilled desire
like lanterns are, at eventide I am set afire

قتیل شفائی




گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا

قتیل شفائی